ہر لمحہ نظروں کے سامنے ہزاروں معجزات رونما ہوتے ہیں۔ مثلًا ہوائیں چلتی ہیں، موت آتی ہے، دل دھڑ کتاہے، سانس چلتی ہے،کھانا ہضم ہوتا ہے، کچھ پودھے زمین میں لگے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں تو کچھ پانی میں اور کچھ ریت میں۔ انسان چلتا پھر تا بڑا ہو رہا ہے تو پہاڑ زمیں سے لگے ہوئے بڑے ہورہے ہیں۔جیسے نظام رزق چلتا ہےساری مخلوقات کا:انسان کے علاوہ کوئی کماتا نہیں ہے چاہے آبی جانورہو، یا خسکی کے جانور ہوں یا پھر فضاوں میں رہنے والے۔ایک نظام ہے جو خودبخود چلتا ہے۔ جو اللہ کا نظام ہے۔ جس پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔اسی طریقہ سے دنیا میں جو کچھ ملنا ہے چاہے وہ جزا ہو یا سزا وہ ملکر رہے گا اسکا نظام خود بخود بنتا جائیگا۔اور یہ نظام گھڑی کی سوئی کی طرح اتنا سست ہے کہ ہر کوئی غورو خوض نہیں کر پاتا۔اسلئے انسان کو چاہیے کہ عارضی زندگی کے پیچھے اپنا وقت ضائع نہ کرے اور اصل اختیار اللہ نےجو انسانوں کو دیا ہے وہ دائمی زندگی سنوارنے پر دیا ہے۔
ایک دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسری دنیا ہے جو ہم میں رہتی ہے۔ دنیا دل لگانےکی جگہ نہیں ہے بلکہ استعمال کرنے کی جگہ ہے۔حصول دنیا جیسے ہی ضرورت سے زیادہ آ جاتی ہے اور ہمارے اندر سمانے لگتی ہے اور ہم محو ہو جاتے ہیں۔اسکی مثال ایسے ہے۔ جیسے کشتی پانی میں۔جب تک کشتی پانی میں ہے تب تک وہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے اور جیسے ہی پانی کشتی میں آجاتا ہے وہیں نیست و نابود ہو جاتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم عام حالتوں میں تو اللہ سے غافل رہتے ہی ہیں اور نماز کی حالت میں بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں جبکہ مسجد میں تو کوئی دنیا سامنے نہیں ہوتی ہے۔وہ دنیا جو ہمارے دل و دماغ میں سما جاتی ہےبڑی ہی خطرناک دنیا ہے۔ اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
Comments
Post a Comment