ایک دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسری دنیا ہے جو ہم میں رہتی ہے۔ دنیا دل لگانےکی جگہ نہیں ہے بلکہ استعمال کرنے کی جگہ ہے۔حصول دنیا جیسے ہی ضرورت سے زیادہ آ جاتی ہے اور ہمارے اندر سمانے لگتی ہے اور ہم محو ہو جاتے ہیں۔اسکی مثال ایسے ہے۔ جیسے کشتی پانی میں۔جب تک کشتی پانی میں ہے تب تک وہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے اور جیسے ہی پانی کشتی میں آجاتا ہے وہیں نیست و نابود ہو جاتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم عام حالتوں میں تو اللہ سے غافل رہتے ہی ہیں اور نماز کی حالت میں بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں جبکہ مسجد میں تو کوئی دنیا سامنے نہیں ہوتی ہے۔وہ دنیا جو ہمارے دل و دماغ میں سما جاتی ہےبڑی ہی خطرناک دنیا ہے۔ اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
مالی تنگدستی کو لوگ بہت بڑی پریشانی سمجتے ہیں جب کہ پریشانیوں کے اس مرکز’ جسم‘ میں لا محدود پریشانیاں جنم لیتی ہیں جو پیسہ کے مدد سے ختم نہیں کی جا سکتی ہیں اور یہ بات پیسہ والے خوب جانتے ہیں۔
Comments
Post a Comment