وہ عالم الغیب ہے۔ اس کو پہلے ہی اس بات کا علم ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اب سنو میرے ساتھ ہوا واقعہ۔کافی دنوں کے بعداس بار میرے ٹفن میں کچھ حصہ بچ گیا تھاجو میں نہیں کھاتا ۔ اور وہ ضائع ہو جاتا۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ جیسےہی دروازہ کھولتا ہوں یہ دیکھتا ہوں کہ بلّی بڑی خاموشی سے بیٹھ کر اپنے حصہ کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ آنکھ پھاڑنے لگی اور آواز دینے لگی۔ میں دوبارہ کمرے میں واپس گیا، ٹفن کھولا اور اسکا رزق اسکو تھما دیا۔اب میں سوچ رہا ہوں کہ اس بلی کوکیسے پتہ چلا کہ میرے پاس کچھ بچا ہوا ہے جب کہ دروازہ پوری طرح بند تھاوہ پہلے کئی دنوں تک کیوں نہیں آئی؟ اور اتنے خاموشی سے انتظار کیوں کر رہی تھی؟ اور مجھے دیکھتے ہی چلانے کیوں لگی؟ اور اسکو یہ خیال کہ مرے دروازہ پے ہی رک کر انتظار کر نا ہے، کہاں سے آیا؟ اس کے پیچھے ضرور کوئی ہے جو یہ خیال ڈالتا ہے کہ کس کو کیا کرنا ہے اپنا رزق پانے کیلئے ۔اور اس طریقہ سے یہ بھی ان لمحات میں سے ایک لمحہ ہے جس میں میں رب کو پاتا ہوں۔
ایک دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسری دنیا ہے جو ہم میں رہتی ہے۔ دنیا دل لگانےکی جگہ نہیں ہے بلکہ استعمال کرنے کی جگہ ہے۔حصول دنیا جیسے ہی ضرورت سے زیادہ آ جاتی ہے اور ہمارے اندر سمانے لگتی ہے اور ہم محو ہو جاتے ہیں۔اسکی مثال ایسے ہے۔ جیسے کشتی پانی میں۔جب تک کشتی پانی میں ہے تب تک وہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے اور جیسے ہی پانی کشتی میں آجاتا ہے وہیں نیست و نابود ہو جاتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم عام حالتوں میں تو اللہ سے غافل رہتے ہی ہیں اور نماز کی حالت میں بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں جبکہ مسجد میں تو کوئی دنیا سامنے نہیں ہوتی ہے۔وہ دنیا جو ہمارے دل و دماغ میں سما جاتی ہےبڑی ہی خطرناک دنیا ہے۔ اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
Comments
Post a Comment